Waseem khan

Add To collaction

01-May-2022 لیکھنی کی کہانی ۔ آں چست از روز میری قسط 25

آں چست
از روز میری 
قسط نمبر25
آخری قسط

مستطیل چھوٹے سائز کا روم جسکے فرش پہ مکمل سادہ سبز رنگ کا قالین بچھا تھا اور وسط میں ایک ادھیڑ عمر آدمی سفید سادہ لباس میں ملبوس اور سر پہ سیاہ بگڑی پہن رکھی تھی' بیٹھا تھا۔ آدمی کے دائیں ہاتھ پہ پردہ لگا تھا جسکی لمبائی اور چوڑائی قدرے زیادہ تھی۔ 
"احد بیٹا چلو"۔    احد جو روم کی دہلیز پہ قدم روکے کھڑا تھا' کو سمعان صاحب نے عقب سے پکارا۔ 
احد جیسے خفیف کشش میں گھرا اپنے قدم دھیرے دھیرے رکھنے لگا تھا اور آدمی کے مقابل تھوڑا فاصلے پہ دوزانو بیٹھ گیا تھا۔
آدمی کے چہرے پہ نور تھا جو دیکھنے والے کو اپنی طرف مائل کرتا تھا۔ احد کے چہرے کو بغور دیکھتے آدمی معاملے کے قہر تک پہنچ گیا تھا۔ اس آدمی نے من ہی من میں کچھ پڑھ کر احد پہ پھونکا۔
"تمھارا نام کیا ہے؟؟"۔    نفوس نے آواز بلند کی۔ 
"میں نے پوچھا تمھارا نام کیا ہے؟؟"۔     جواب نا ملنے پہ نفوس نے دوبارہ کہا۔   
"میرا نام رابیل ہے"۔     احد کے وجود میں پناہ گزیں قوت نے سر اٹھایا جس کے سبب احد کی آواز بھاری ہو گئی تھی۔
"تمھارا مسکن کدھر ہے؟"۔     
"جھیل کنارے درخت پہ میرا ٹھکانا ہے"۔     
احد کا سر جھکا ہوا تھا اور آواز مستقل بھاری نکل رہی تھی۔
"تم اس لڑکے کے ساتھ کب سے ہو؟؟"۔   
نفوس نے جیسے احد کے تن میں موجود قوت پہ سحر سا کر دیا تھا جس پہ وہ یکے بعد دیگرے جواب دیتے چلی گئی اور نفوس سوال کرتے۔
"تقریبا سات ماہ سے"۔   
"کیا مقصد تھا تمھارا اسکے ساتھ رہنے کا؟یہ لڑکا تم سے کیسے ملا؟"۔    
"ایک روز جھیل کنارے جب یہ گنگنا رہا تھا مجھے اسکی آواز بہت پسند آئی تھی'اس دن کے بعد سے میں اسکے ساتھ دیوانوں کی طرح ہوں۔ یہ کسی کے قریب جائے یا کوئی اسکے قریب آئے مجھے یہ گوارہ نہیں ہے"۔     
"پھر تو تم ان سب کو نقصان پہنچاتی ہوگی؟؟"۔    نفوس نے اعتقاد سے کہا۔
"ہاں میں نے اسکی بھابی اور منگیتر کو کئی بار نقصان پہنچایا ہے"۔    
راضیہ بیگم نے حیرت سے سمعان صاحب کو دیکھا جو انکے برابر کھڑے تھے۔
شہریار، سمعان صاحب اور راضیہ بیگم کے ہمراہ چند ایک لوگ جو اس روم میں موجود تھے تعجب سے ان دونوں کے مابین ہو رہی گفتگو سن بھی رہے تھے اور دیکھ بھی رہے تھے۔
"تمھیں شرم نہیں آتی؟ ایک تو اس لڑکے کی زندگی تباہ کرنے کا سوچ رہی ہو اور دوسرا اسکے خاندان کا بھی جینا دوبھر کر رکھا ہے تم نے"۔     نفوس نے اب کی بار سختی سے کہا تھا۔
"مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا مجھے احد سے محبت ہے میں بس اتنا جانتی ہوں"۔    احد کی آڑ میں ہمکلام غیبی قوت اب عتاب میں گویا ہوئی۔
"جیسے تمھارا خاندان ہے ایسے اسکا بھی خاندان ہے اور چاہنے والے ہیں ہم کسی پہ زبردستی مسلط نہیں ہو سکتے نا ہی کسی کو جبرا اپنے ساتھ رکھ سکتے ہیں۔ آج تمھیں فیصلہ کرنا ہی ہوگا یا تم میرے پاس رہو گی یا اپنے ٹھکانے واپس چلی جاو گی لیکن تم اس لڑکے کا ساتھ چھوڑ دو گی"۔    نفوس نے قطعی لہجہ اپنایا۔
"تم جو مرضی کر لو میں اس کو چھوڑ کر نہیں جاوں گی"۔
"اچھا تو تم ایسے نہیں مانو گی"۔    بولتے ہی نفوس نے لمحہ بھر کو آنکھیں بند کر کے کھولیں۔
نفوس کے دائیں ہاتھ پہ لگا پردہ ہلکا سا سائیڈ پہ ہوتے جگہ پہ واپس آیا جیسے کسی نے پردہ ہلکا سا کھسکا کے روم میں قدم رکھا ہو مگر نظروں سے اوجھل ہو۔
"تمھیں کوئی نظر آیا"۔    آدمی نے کنفرم کیا۔
"ہاں"۔   
"کون ہے یہاں؟؟"۔    
"ایک جن جو مجھ سے بہت زیادہ طاقت ور اور پرانا ہے"۔      
"بابا جی اسکے سر میں کیلیں ٹھوکیں"۔    نفوس کے بولتے ہی احد حلق کے بل چلانے لگا تھا۔ اسکے دونوں ہاتھ جیسے بندھے ہوئے تھے۔
"بس کریں بابا جی"۔     پانچ منٹ کے توقف سے آدمی نے آواز بلند کی جس پہ احد نے سکون کی سانس خارج کی۔  "اب بتاو اس لڑکے کو چھوڑو گی یا نہیں؟"۔     آدمی نے احد کی طرف دیکھتے دوبارہ سے پوچھا۔
"میں اسے چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی پلیز"۔    اب کی بار التجائیہ لہجے میں کہا گیا تھا۔
"لیکن میں تمھیں اسکے ساتھ رہنے کی اجازت نہیں دے سکتا"۔     آدمی نے حتمی کہا۔  "تمھارے پاس دو راستے ہیں یا تو میرے پاس رہ جاو یا اپنے ٹھکانے واپس چلی جاو لیکن اس شرط پہ کہ دوبارہ ایسی حرکت نہیں کرو گی"۔    نفوس نے مزید کہا۔
 "نہیں میں آپکے پاس رہ جاوں گی کیونکہ اگر میں واپس گئی تو میرا دل احد کے ساتھ رہنے پہ مجبور کرے گا"۔    احد نے جھکا سر اٹھایا۔ آنکھیں لال گلال رنگ کی مانند سرخ پڑ رہیں تھیں۔
"ٹھیک ہے میں تمھارا استقبال کرتا ہوں"۔     بولتے ہی آدمی نے کچھ پڑھ کر احد پہ پھونکا جسکے بعد وہ غیبی قوت ایک جھٹکے سے احد کے تن سے جدا ہوئی اور احد بیہوش ہوکر پیچھے کو گر گیا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"ماما' پاپا' بھائی"۔    کچھ ہی منٹوں کے توقف سے احد ہوش میں آ گیا تھا جسکے بعد اسکی نظروں میں اپنے پاس کھڑے سمعان صاحب، شہریار اور راضیہ بیگم کا عکس سمایا۔ اسکے لب ہنسنے کے ساتھ آنکھیں اشک بہانے کی جسارت کرنے لگیں۔
"احد میرے بچے"۔    احد کھڑے ہوتے ہی راضیہ بیگم کے گلے لگا اور راضیہ بیگم نے اسے جی بھر کر پیار کیا۔
راضیہ بیگم کے بعد احد سمعان صاحب اور شہریار کے گلے لگا۔
"مشی"۔    خیال آتے ہی احد نے کہا۔
"گھر پہ سب تمھارا انتظار کر رہے ہیں"۔    راضیہ بیگم نے تمسکن آمیز انداز میں کہا۔ 
"اگر تم چاہتے ہو تو کال پہ مشائم سے بات کر لو"۔    شہریار نے کہا۔
"نہیں بھائی میں مشی سے گھر جا کر ہی بات کروں گا"۔    احد کا دل ہفتوں بعد مشائم کا مکھ دیکھنے کو کیا تھا ساتھ ہی احد کی بدولت مشائم کے چہرے پہ آئی ہنسی کو دیکھنے کیلئے شدت سے خواہاں تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
کار کے ہارن کی آواز پہ مشائم دوڑتی ہوئی اپنے روم کی کھڑکی پہ آئی جہاں سامنے پورچ میں کھڑی کار پہ آنکھوں میں احد کے دید کی چاہت لیئے' نظر جمائے کھڑی ہو گئی۔ کار کا دروازہ کھلتے ہی مشائم نے اپنا منہ پھیر لیا جیسے اسکے قابو سے باہر ہوتا زور سے دھڑکتا دل احد کے دید کی تاب نا لا سکے۔
"اسلام و علیکم آنٹی"۔     دوری کے سبب احد کی مدھم آواز مشائم کے کانوں میں گونجی جس پہ وہ بھاگتی ہوئی بیڈ پہ اوندھی جا گری اور تکیہ تھوڑی کے نیچے ٹکا لیا۔
"میرا احد واپس آ گیا' میرے لیئے' مجھ سے ملنے"۔    مشائم کے چہرے پہ دلستانی مسکان سجی تھی۔
دروازے پہ دستک ہوئی تو مشائم فورا سے سیدھی ہوئی۔
"کون ہے؟ آ جاو"۔    دوپٹہ کندھوں پہ برابر کرتے مشائم نے آواز بلند کی اور منہ پھیر کر کھڑی ہوگئی۔
"یہ تو غلط بات ہے اتنے دن میں تم سے دور رہا سبب تم اچھے سے جانتی ہو کہ اس دوری کی وجہ کیا تھی۔ کب سے بےچین تھا' تمھارا چہرہ دیکھنے کیلیئے میں کتنا بےتاب تھا۔ میں پاگل نہیں ہوں جو یہاں دوڑا چلا آیا تم سے ملنے"۔    عقب سے من چاہی آواز کانوں میں رس گھولنے لگی تب مشائم کی آنکھ سے آنسو جاری ہوئے۔ 
"مشو"۔    سسکیوں کی آواز پہ احد نے آگے بڑھتے مشائم کے شانوں پہ ہاتھ رکھتے اسکا چہرہ اپنی طرف کیا۔
مشائم نے فی الفور اپنی پیشانی احد کے سینے سے ٹکا لی' اسکی آنکھوں سے نکلتا بے رنگ پانی اب احد کی شرٹ بھگونے لگا تھا۔
"مشو اب میں آ گیا ہوں' سب ٹھیک ہو جائے گا"۔      مشائم کے سر پہ تھپکی دیتے احد نے دھیرے سے کہا۔
"اب تم کبھی مجھے چھوڑ کر تو نہیں جاو گے نا؟؟"۔    مخمور نم آنکھیں، دراز بھیگی پلکیں، تر چہرہ اٹھائے مشائم نے دل کی تسلی کی خاطر کہا۔
"کبھی نہیں"۔    مشائم کا چہرہ ہاتھوں کی اوک میں لیتے احد نے مسکراہٹ مشائم کی طرف اچھالی۔ "ایک جنڑی سے جان چھڑا کے دوسری کی جان کھانے آیا ہوں"۔    احد شریر ہوا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
آج احد اور مشائم کا نکاح تھا۔ کہتے ہیں صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے' دوری کے گھونٹ پیتے احد اور مشائم دونوں ہی صبر کی رسی ہاتھوں میں مضبوطی سے تھامے ہوئے تھے اور اس صبر کا پھل آج دونوں کو نکاح کی صورت میں مل رہا تھا۔
نکاح کی تقریب حویلی کے لان میں رکھی گئی تھی جسکی بدولت لان کو رنگارنگ بتیوں اور مہکتے پھولوں سے آراستہ کیا گیا تھا۔ مہمان اور رشتہ دار سبھی آ گئے تھے اس وجہ سے لان میں خاصی گہما گہمی تھی۔
احد لان کے درمیان میں کھڑا حمزہ سے گفت و شنید میں محو تھا اس پل اسکی نظر حویلی کی اندورنی جانب اٹھی جہاں مشائم حرا اور زہرہ کے مابین چلتی سیڑھیاں اترتے اس طرف آ رہی تھی۔
احد کی نظریں مشائم کے چہرے پہ ساکن ہوئیں۔
لال رنگ کی میکسی جو پیروں تک تھی' جس پہ طلائی رنگ کا کام نفاست سے کیا گیا تھا، پیروں میں گولڈن ہیل، بالوں کو کھول کر بلو ڈرائڑر کر رکھا تھا ساتھ ہی پیشانی کے مابین ایک بندیا چمک رہی تھی، گلے میں گلبند اور کانوں میں تھوڑی بڑے آویزے۔ آنکھوں پہ اسموکی آئی میک اپ، گالوں پہ ہلکا بلش آن کا ٹچ، لبوں پہ لال گلال لپ سٹک جو اسکے لبوں پہ جیسے فکس ہوئی تھی اور دوپٹہ مکمل پیچھے کو سیٹ کیا گیا تھا۔
مشائم احد کے مقابل آ رکی جبکہ احد یونہی مشائم کا سحر آمیز روپ نظروں کے پردوں سے اتارا رہا تھا۔
"احد صاحب اب مس مشائم تا زیست آپ ہی کی رہیں گیں انہیں بعد میں گھور لینا"۔    ہلکا سا احد کے قریب ہوتے حمزہ نے سرگوشی کی۔   "کیا خیال ہے ایک گانا نا ہو جائے؟"۔    ہاتھ میں پکڑے مائیک کو لبوں تک رسائی دیتے حمزہ نے کہا جس پہ لان ہوٹنگ اور شور سے گونج اٹھا تھا۔
"یہ لو احد اور شروع ہو جاو"۔    مائیک احد کی طرف اچھالتے حمزہ نے کہا۔
مشائم کی جانب دلربائی سے مسکاتا ہوا دیکھ کر احد نے گلا کھنکارا۔
"میں نے چھوڑے ہیں باقی سارے راستے 
بس آیا ہوں تیرے  پاس رے
میری آنکھوں میں تیرا نام ہے 
پہچان لے
سب کچھ میرے لیئے تیرے بعد ہے
سو باتوں کی اک بات ہے
میں نا جاوں گا کبھی تجھے چھوڑ کے 
یہ جان لے
ہو کرم خدایا ہے
تیرا پیار جو پایا ہے
تجھ پہ مر کے ہی تو
مجھے جینا آیا ہے
او تیرے سنگ یارا،،، خوش رنگ بہارا
تو رات دیوانی،،، میں ذرد ستارا"۔
مشائم کے گالوں پہ فورا سے لال لالی آ ٹھہری تھی جس پہ اسنے شرمگیں نگاہیں جھکا لیں❤
ختم شد

   1
0 Comments